Skip to content
Home » Blog » اراٹوس تھینیس کا حیرت انگیز انکشاف

اراٹوس تھینیس کا حیرت انگیز انکشاف

  • by

اراٹوس تھینیس کا حیرت انگیز انکشاف

شارق علی

ویلیوورسٹی

240 قبل مسیح کے قریب، ایک یونانی فلسفی اور ریاضی دان، اراٹوس تھینیس نے ایسا انقلابی کام سرانجام دیا جو آج بھی دنیا کو حیران کرتا ہے۔ وہ اسکندریہ کی مشہور لائبریری کے نگران تھے اور اپنے وقت کے ایک عظیم سائنس دان مانے جاتے تھے۔ انہوں نے سورج کے زاویوں اور مشاہدات کے ذریعے زمین کے گھیراؤ کا اندازہ لگایا، جو اس وقت کے حساب سے غیرمعمولی کارنامہ تھا۔

مشاہدہ اور سوچ

گرمیوں کے سب سے لمبے دن (Summer Solstice) کے دوران، اراٹوس تھینیس نے یہ مشاہدہ کیا کہ شہر سائین (آج کا اسوان، مصر) میں سورج عین سر کے اوپر ہوتا ہے، اور اس وقت کسی بھی چیز کا سایہ نہیں بنتا۔ اس کے برعکس، اسکندریہ میں اسی وقت ایک ستون کے نیچے ایک چھوٹا سایہ نمودار ہوتا تھا۔

انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر سورج کی شعاعیں سیدھی اور متوازی ہیں، تو زمین کی سطح ضرور خم دار ہوگی۔ انہوں نے اسکندریہ میں سایے کے زاویے کو ناپا، جو تقریباً 7.2 ڈگری تھا۔

ریاضی اور زمین کا گھیراؤ

اراٹوس تھینیس نے اندازہ لگایا کہ اس زاویے کا فرق زمین کے گھیراؤ کا تعین کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکندریہ اور سائین کے درمیان فاصلے کو 800 کلومیٹر سمجھا گیا۔ انہوں نے حساب لگایا کہ اگر یہ 7.2 ڈگری ہے، تو پورے 360 ڈگری کے لیے زمین کا گھیراؤ کتنا ہوگا۔

ان کے حساب کے مطابق:

800 کلومیٹر ÷ 7.2 ڈگری × 360 ڈگری = 39,375 کلومیٹر

یہ اندازہ حیرت انگیز طور پر زمین کے اصل گھیراؤ 40,075 کلومیٹر کے بہت قریب تھا۔

سائنسی اہمیت

اراٹوس تھینیس کا یہ تجربہ اس بات کا مضبوط ثبوت تھا کہ زمین گول ہے۔ اگر زمین چپٹی ہوتی، تو سورج کی شعاعیں ہر جگہ ایک جیسے زاویے بناتیں اور سایے میں فرق نہ آتا۔ ان کے کام نے یہ ثابت کیا کہ زمین کی سطح خم دار ہے، اور ان کے مشاہدات اور حسابات نے سائنس کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔

اراٹوس تھینیس کی ذہانت

اراٹوس تھینیس کا یہ کارنامہ ان کی ذہانت، مشاہداتی صلاحیت، اور ریاضی کے علم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس دور میں جب نہ جدید آلات دستیاب تھے اور نہ ہی کوئی سائنسی سہولت، انہوں نے اپنی سوچ اور منطق کے ذریعے زمین کے گھیراؤ کو حیرت انگیز درستگی سے معلوم کیا۔

یہ کام نہ صرف ان کی عظمت کا ثبوت ہے بلکہ سائنس کی دنیا کے لیے ایک سنگ میل بھی ثابت ہوا۔ ان کی تحقیق آج بھی ہمیں سکھاتی ہے کہ مشاہدہ، تجزیہ، اور علم کے ذریعے ہم بڑے سے بڑے سوالات کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *