اجنبی مخلوق، آٹھواں انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی
پرندوں کی چہچہاہٹ کے خوشگوار قدرتی الارم نے مجھے جگا دیا۔ رات بھر کی پر سکون نیند سے سفر کی تھکان تقریبا غایب ہو چکی تھی۔ گھر کے دیگر افراد اب تک محو خواب تھے۔ میں دبے پاؤں خواب گاہ سے باہر نکلا اور سیڑھیاں اتر کر کچن ڈایننگ میں جا پہونچا۔ الیکٹرک کیٹل آن کی اورخود اپنے لیے چاے بنای۔ سامنے رکھے کروزوں اور خشک میوے کا مڑہ لیتے ہوے ہلکا سا ناشتہ کیا۔ جوگرز پہنے اور نیبر ہوڈ کی سیر کی نیت لیے گھر سے نکلا. جب کرسٹوفر کولمبس کے جہاز نئی دنیا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوے تو مقامی لوگوں نے اس میں سوار ملاحوں کو ایسے دیکھا جیسے وہ آسمان سے اتری ہوی کوئی مخلوق ہوں جو زمین پر آ گئی ہو۔ وہ حیرت سے کبھی اپنی چھوٹی کشتیوں اور کبھی ان کے بڑے بڑے جہازوں کو دیکھتے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے اپنے جیسے دو ٹانگوں اور بازوؤں والے انسانوں کو دیکھتے۔ یہ سب کچھ ان کے لئے کسی عجوبے سے کم نہ تھا۔ وہ اپنی معصومیت میں بلا جھجھک ان کے جہازوں پر چڑھ گئے۔ وہ عملے کے ساتھ بے غرضی، خلوص اور محبت سے اپنی ہر چیز بانٹنے پر راضی تھے۔ انہیں یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ بظاہر ان جیسے دکھائی دینے والے یہ لوگ لالچی اور خود غرض ہیں۔ ان کی آزادی اور زندگی کے دشمن ہیں۔ ان ووڈ ایونیو کی مارننگ واک کے دوران آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا. سیر کے دوران بارش سے تو میں محفوظ رہا لیکن کبھی کبھار اکا دکا بوند کا گرنا چونکا دیتا تھا ۔ مناسب سایز کی سڑک کے دونوں جانب وقفے وقفے سے لگے مناسب بلندی کے سرسبز درخث تھے۔ کشادہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چلتی سبز گھاس کی پٹی اور گھروں کی کیاریوں میں کھلے رنگ برنگے پھول۔ اکثر گھروں کے سامنے تین تین گاڑیاں کھڑی نظر اتیں۔ کچھ ڈرائیو وے میں ہالیڈے کیروان اور بڑی ویگنیں بھی جو روز مرہ کے استعمال سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ کچھ گھروں کے سامنے انفرادی پریکٹس کے لیے باسکٹ بال کھیلنے کا انتظام بھی۔صاف ظاہر تھا کہ امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے سرمایہ دارانہ طرز زندگی کے اظہار میں جھجھکتا نہیں۔ مجھے اس بیباکی پر کوی گلہ نہیں تھا۔ اعتراض تو دنیا بھر کے وسایل پر امریکی قبضے کی اندھی کوششوں پر رہتا پے۔ کولمبس کے جہاز امریکہ نہیں بلکہ اس سے ذرا پہلے ایک جزیرے پر لنگر انداز ہوے تھے۔ براعظم امریکہ کے ساحلوں سے کچھ پہلے جو بکھرے ہوئے جزائر ہیں انہیں ہم ویسٹ انڈیز کہتے ہیں۔ انہی میں سے یہ ایک جزیرہ جسے مقامی لوگ گواناہینی کہتے تھے اور جسے کولمبس نے سین سلواڈور کا نام دیا۔ یہ ہی وہ مقام تھا جہاں کولمبس کے جہاز لنگر انداز ہوے۔ اس تاریخی جزیرہ پر بارہ اکتوبر چودہ سو بانوے میں پرانی دنیا کے باسیوں نے نئی دنیا کی زمین پر گیارہ ہزار سال بعد دوبارہ قدم رکھا ۔ یہ اکیس کلومیٹر لمبا اور آٹھ کلومیٹر چوڑا چھوٹا سا جزیرہ ہے جو گھنے جنگل ، نمکین جھیلوں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ آج یہ جزیرہ بہاماس کا حصہ ہے اور زیادہ تر غیر آباد رہتا ہے۔ جب کولمبس کے جہاز ساحل پر پہنچ رہے تھے تو جزیرے پر رہنے والے لوگوں نے انہیں دور سے دیکھ لیا۔ یہ خبر دوسرے قبیلوں تک پہنچا دی گئی۔ ان اجنبی مہمانوں کی آمد نے جزیرے پر ہلچل مچا دی۔ مقامی لوگ ان جہازوں کو دیکھنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ ان میں سے کچھ سمندر میں کود گئے۔ چند ایک جہازوں پر بھی چڑھ کر بیٹھ گئے ۔ ان کے چہروں پر بچوں جیسی معصوم خوشی تھی۔ وہ اپنے پالتو رنگین طوطے اور کھانے پینے کی اشیاء ان اجنبی مہمانوں کو پیش کر رہے تھے۔۔۔۔ جاری ہے