Skip to content
Home » Blog » آسٹریا کہانی: ایڈل وایز

آسٹریا کہانی: ایڈل وایز

  • by

تیسری قسط


شارق علی
ویلیوورسٹی

ٹرین ہیٹزنگ کے اسٹیشن پر رکی، برقی دروازے کھلے اور ہم دونوں پلیٹ فارم پر اترے۔ معمولی سا رش تھا۔ اسٹیشن سے باہر جانے والے گیٹ کی جانب چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک ادھیڑ عمر، ایشیائی خدوخال والے شخص نے ہمیں روک لیا۔ وہ کوئی میگزین مفت تقسیم کر رہا تھا۔ چونکہ ہم مقامی زبان سے ناواقف تھے، اس لیے میگزین شکریہ کہہ کر واپس کر دیا۔ اُس نے پوچھا: “آپ انڈیا سے آئے ہیں؟”
میں نے جواب دیا: “نہیں۔ اور آپ؟”
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ دہلی سے بہت برس پہلے یہاں آ کر آباد ہوا تھا۔ ہوٹل کا پتہ پوچھا تو نہ صرف پورا پتہ بتانے لگا بلکہ اسٹیشن کے باہر تک آ کر گرمجوشی سے سمجھایا۔

ہیٹزنگ کے اسٹیشن کے ساتھ چند دکانیں تھیں۔ ایک لبنانی ٹیک اوے کے باہر لکھے ہوئے کارآمد لفظ “حلال” نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے باہر آتے ہی ٹرام کے ٹریک ہر سمت بچھے دکھائی دیے۔ کئی ٹرامز مختلف سمتوں میں جاتی نظر آئیں۔ ہم نے زیبرا کراسنگ سے ان ٹریکس کو عبور کیا اور بائیں جانب جاتی سڑک کے فٹ پاتھ پر چلنے لگے۔ یہ خاصا مصروف علاقہ تھا۔ سڑک کے دوسری جانب شون برن پیلس کے عقبی باغ کی دیوار تھی اور بائیں جانب مختلف دکانوں کا سلسلہ، جن میں کیفے، بیکری، آئس کریم شاپ اور مقامی گروسری اسٹور شامل تھے۔ ہر طرف چہل پہل اور گہما گہمی کا منظر تھا، جو آسٹریا کی جدید طرزِ زندگی کا عکاس تھا۔

یہ گہما گہمی اس ملک کے آج کی نمائندگی کرتی ہے، لیکن ماضی میں یہ سرزمین کئی قدیم تہذیبوں کی گواہ رہ چکی ہے۔ یہاں پتھر کے زمانے کی قدیم آبادی کے آثار ملتے ہیں، یعنی کوئی ڈھائی تین لاکھ سال پہلے انسان یہاں آباد تھے۔ بعد کی قدیم تہذیبوں میں پتھر کے اوزاروں کی دریافت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہاں کے قدیم باشندے نہایت ذہین اور ماہر فن تھے۔ وینس آف ولینڈورف، ایک چونے کے پتھر کی بنی مورتی، یہاں دریافت ہوئی، جو تقریباً 29,500 سال پرانی ہے۔ یہ آرٹیفیکٹ ان قدیم لوگوں کی تخلیقی صلاحیت اور تہذیبی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ آج بھی ویانا کے جدید ریستورانوں کی گہما گہمی میں کہیں نہ کہیں قدیم تہذیب کی خوشبو آوارہ گھومتی محسوس ہوتی ہے—ماضی اور حال کے درمیان بندھی ایک ڈور۔

تقریباً دو تین منٹ کی مسافت کے بعد ہم اپنے ہوٹل، “پارک ٹرینڈ ہوٹل” پہنچے۔ یہ ہوٹل دراصل سولہویں یا شاید سترہویں صدی میں کسی نواب کا محل تھا۔ بادشاہ کے اس مصاحب نے شون برن پیلس کے قریب قیام کرنا پسند کیا۔ پیلے پتھروں سے بنی یہ تین منزلہ عمارت آج بھی اپنی شان و شوکت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اب اسے جدید سہولیات سے آراستہ ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

ریسپشن پر پرتپاک استقبال ہوا۔ رسمی کارروائی کے بعد ایک پورٹر ہمارا سامان کھینچتا ہوا ہمیں مختص کمرے تک لے گیا۔ یہ مرکزی عمارت کے عقب میں واقع انیکسی میں تھا۔ وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں ایک خوبصورت باغ سے ہو کر گزرنا پڑا۔ باغ میں بہتے فوارے، تناور درخت، اور دلکش ہریالی دل کو خوش کر دینے والے مناظر پیش کر رہے تھے۔ انیکسی کے کمرے نسبتاً زیادہ پرسکون اور مکمل سہولیات سے آراستہ تھے۔ کھڑکی کھولنے پر باغ میں بہتے فواروں کی آوازیں اور قدیم طرز کی عمارت کے پس منظر سے ماضی کی سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں، اجنبی کردار ادھر سے ادھر اتے جاتے دکھائی دیتے تھے۔

کمرے میں سامان ترتیب سے رکھا گیا۔ چند منٹ آرام کرنے کے بعد ہم ہوٹل کے بغلی دروازے سے باہر نکلے تو خود کو مصروف بازار میں پایا۔ قریبی گروسری اسٹور میں داخل ہوئے تو ایک جانب تر و تازہ پھولوں کے گلدستے اور دوسری جانب تازہ پھلوں کی بہار نظر آئی۔ آسٹریا کی قدرتی خوبصورتی کا نمائندہ اس کا قومی پھول “ایڈل وایز” ہے، جو محبت اور پاکیزگی کی علامت ہے۔ صرف خوبصورت پھولوں سے ہی نہیں بلکہ تین ہزار سے زائد انواع و اقسام کے رنگ برنگے الپائن پودوں سے مزین یہ دیس فطری حسن سے مالامال ہے۔ یہاں کے لوگ “نرگس کے تہوار” جیسی تقریبات میں جوش و خروش سے حصہ لے کر اپنے دیس کے نباتاتی تنوع کا جشن مناتے ہیں۔ یہاں کے مشہور پھلوں میں آسٹرین سیب، خوبانیاں، اور اعلیٰ معیار کی شراب بنانے کے لیے انگور شامل ہیں۔ موسمِ بہار میں یہاں کے سبزہ زاروں میں چیری کے پھولوں سے لدے درخت دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں، جبکہ یہاں اگنے والے کدو کے تیل سے آسٹریا کے کھانوں کو ذائقہ فراہم کیا جاتا ہے۔

۔۔۔ جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *