ٹی ریسورٹ
نویں قسط
شارق علی
ویلیو ورسٹی
ہماری وین ایک بلند و بالا آہنی جنگلے والے دروازے کے سامنے رک گئی۔ باہر ایک باوردی محافظ کھڑا تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر سالک اور منیرہ رحمان نظر آئے، گارڈ نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ ہماری وین سری منگل ٹی ریسورٹ کے بل کھاتے، پگڈنڈی نما اندرونی راستے پر بڑھنے لگی۔ یہ ریسورٹ سلہٹ کے مضافات میں چائے کے باغات سے گھری ہوئی ایک پہاڑی پر واقع تھا اور شاید اس علاقے کا سب سے بڑا ریسورٹ تھا۔ یہ پہاڑی زیادہ بلند نہیں تھی، لیکن ہلکی چڑھائی اور اترائی نے اس مقام کو بہت دلکش بنا دیا تھا۔
بنگلہ دیش دنیا کے بڑے چائے پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور سلہٹ کے علاقے کو ان باغات کی وجہ سے “چائے کا شہر” کہا جاتا ہے۔ یہاں کی حسین وادیوں میں 150 سے زائد چائے کے باغات ہیں، جہاں زیادہ تر خواتین مہارت سے چائے کی پتیاں چنتی ہیں۔ یہ مہارت چائے کی کوالٹی برقرار رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔
ہماری وین پگڈنڈی کے اختتام پر مرکزی عمارت کے سامنے جا کر رک گئی۔ اس کشادہ ٹی ریسورٹ میں مختلف مقامات پر کوٹیجز یا گیسٹ ہاؤسز تعمیر کیے گئے تھے، جو پہاڑی کی ڈھلوانوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ یہ خوبصورت کاٹجز مختلف نمبروں سے نشان زد کیے گئے تھے، جن کی کل تعداد تقریباً چودہ یا شاید سولہ تھی۔ مرکزی عمارت اس کے علاوہ تھی۔
ریسورٹ کی مین بلڈنگ زیادہ اونچی نہیں تھی، لیکن ایک وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بیچوں بیچ ایک اولمپک سائز سوئمنگ پول موجود تھا۔ عمارت میں کانفرنس ہال، ڈائننگ ہال، اور کچھ رہائشی کمرے بھی تھے۔ ہماری کانفرنس اسی مرکزی عمارت میں ہونی تھی۔
ریسورٹ پہنچنے کے بعد طے ہوا کہ پہلے ہم سب اپنے اپنے کوٹیجز میں جا کر کچھ دیر آرام کر لیں اور پھر شام کی میٹنگ کے لیے دوبارہ مرکزی عمارت میں جمع ہوں۔ یہ طے پانے کے بعد ہم اپنا سامان اٹھا کر متعلقہ کوٹیجز کی طرف روانہ ہو گئے۔ مجھے اپنے کاٹج تک جانے کے لیے چائے کے باغ کے درمیان سے ہو کر گزرنا پڑا۔ بنگلہ دیش کی چائے، خاص طور پر گرین ٹی، صحت کے لیے فائدہ مند اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے، جو دل کی بیماریوں اور وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ چٹاگانگ بندرگاہ سے چائے کی برآمدات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کی چائے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر سال 15 دسمبر کو “چائے کا عالمی دن” بھی منایا جاتا ہے، جس میں چائے کے مزدوروں کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
مجھے کوٹیج نمبر تین الاٹ ہوا، جہاں مجھے دو انڈین پلاسٹک سرجری کے ٹرینی ڈاکٹرز، راجیش اور راہول کے ساتھ قیام کرنا تھا۔ چونکہ میں فیکلٹی ممبر تھا، اس لیے مجھے ایک بڑا ماسٹر بیڈ روم دیا گیا، جو این سویٹ تھا، جبکہ راجیش اور راہول کو سنگل کمرے ملے اور وہ دونوں اس پر بہت خوش تھے۔ قیام کے تین دنوں میں ان دونوں نے میرا بہت خیال رکھا اور مجھے چائے بنانے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
کمرے میں پہنچ کر میں نے پہلے سامان ترتیب سے رکھا، پھر ایک طویل شاور لیا اور کچھ دیر آرام کیا۔ تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد میں نے جینز اور جاگرز پہنے اور کانفرنس ہال کی طرف چل پڑا۔
کورس ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری تھی کہ کانفرنس ہال میں سیٹنگ ارینجمنٹ اور دیگر سہولیات کا جائزہ لوں، کیونکہ اگلی صبح ساڑھے آٹھ بجے کانفرنس کا آغاز ہونا تھا، جس کے بعد ہینڈز آن ورکشاپ ہونا تھی۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ورکشاپ کے لیے سیٹنگ ارینجمنٹ مناسب نہیں تھی اور میرے معیار پر پوری نہیں اتر رہی تھی۔ میں نے وہاں موجود والنٹیئرز اور میزبانوں کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ ہم سب نے مل کر سیٹنگ کو دوبارہ ترتیب دیا تاکہ یہ کانفرنس اور ورکشاپ کی ضروریات کے مطابق ہو جائے۔ اس کے بعد آڈیو-ویژول سسٹم کا معائنہ کیا اور اسے بھی مکمل طور پر تیار کیا۔
یہ تمام کام ٹیم بلڈنگ کے نقطہ نظر سے بھی بہترین تھا، کیونکہ ہم سب کے درمیان ہم آہنگی بڑھ گئی تھی۔ تین گھنٹوں کی محنت کے بعد ہم نے کانفرنس ہال کو بالکل اپنی مرضی کے مطابق تیار کر لیا۔
اب رات کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا…
(جاری ہے)