Skip to content
Home » Blog » ٹائم مشین اور ایک گھر

ٹائم مشین اور ایک گھر

  • by

ٹائم مشین اور ایک گھر

شارق علی
ویلیوورسٹی

ٹائم مشین فی الحال میسر نہیں،
اور اگر کبھی ایجاد ہو بھی گئی تو ہم جیسے عام لوگوں کو شاید بہت دیر بعد ہی نصیب ہو۔
لیکن اس مسئلے کا ایک نہایت سادہ حل ہے۔
اگر ماضی کے خوشگوار لمحے دوبارہ جینے ہوں تو کسی پرانے دوست سے مل لیجیے۔
قائدِ اعظم کے مزار کے قریب واقع
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ
کے دفتر پہنچا تو ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحب مصروف تھے۔
انتظامی ذمہ داریوں اور فائلوں سے فرصت ملی تو ہم دونوں نے ایک دوسرے پر وہی پرانی، مانوس نظر ڈالی۔
بے ساختہ سی مسکراہٹ،
اور یوں لگا جیسے ہم دونوں ایک ساتھ ٹائم مشین میں بیٹھ گئے ہوں۔
چالیس پینتالیس برس پیچھے،
میڈیکل کالج کے دنوں میں جا پہنچے۔
چہرے کی جھریاں تحلیل ہو چکی تھیں۔
باتوں اور ہنسی میں نوجوانی کی تازگی لوٹ آئی تھی۔
سالوں کی دوری،
مختلف ملکوں کی رہائش،
اور نجی زندگی کی مصروفیات،
سب تحلیل ہو چکی تھیں۔
بہادرآباد کی گلیوں میں ٹہلتے،
زبانی امتحانات کی تیاری جاگ اٹھی۔
کالج کی سیڑھیوں پر
دلی وارداتوں کی رازداریاں لوٹ آئیں۔
ہم دونوں نوجوانی کی خیالی حقیقت کا چشمہ لگائے
مخمور تھے کہ جمال نے کہا،
“آؤ، تمہیں ایک گھر دکھاتا ہوں۔”
سرکاری ڈالے میں بیٹھے
اور مزارِ قائد کے قریب واقع
ایک پرانے مگر باوقار گھر کے سامنے جا رکے۔
یہ داؤد فاؤنڈیشن کا گھر تھا۔
ٹکٹ لیتے وقت
کالج کے زمانے کی کمینگی لوٹ آئی
اور میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
ڈیڑھ سو روپے کا ٹکٹ کوئی مسئلہ نہ تھا
مگر دوستانہ روایت کا احترام ضروری تھا۔
چالاکی دکھانے کی
وہ معصوم نوجوان ادا کامیاب ہوئی۔
جمال نے دونوں ٹکٹ خرید لیے۔
داؤد فاؤنڈیشن کا گھر
انیس سو تیس کی دہائی میں تعمیر ہونے والا
کراچی کا ایک رہائشی گھر ہے،
جو کبھی متوسط طبقے کے ایک خوشحال شہری خاندان کی رہائش گاہ تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی
برطانوی ہند کا ایک ابھرتا ہوا، مہذب اور پُرامن ساحلی شہر تھا۔
اس گھر کی دیواروں نے
برصغیر کی سماجی تبدیلیاں،
قیامِ پاکستان،
اور ایک نئے ملک کے خواب بنتے اور بکھرتے دیکھے۔
بعد ازاں داؤد فاؤنڈیشن نے
اسے ذوق اور وقار کے ساتھ بحال کر کے
ایک زندہ عجائب گھر کی صورت دے دی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت کی رفتار آہستہ ہو گئی ہو۔
بھولا بسرا پرانی طرز کا فرنیچر،
گراموفون،
سنگر کی سلائی مشین،
ڈائل گھمانے والا ٹیلی فون،
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے چائے کے کپ،
اور لکڑی کی الماریاں،
یہ محض اشیاء نہیں،
بلکہ ایک پورے عہد کے رہن سہن کی زندہ کہانیاں ہیں۔
یہ وہ کہانیاں ہیں
جو تقسیمِ ہند کے بعد
اس شہر میں آ بسنے والوں نے
تب جئیں،
جب انہوں نے کراچی کو
اپنا نیا گھر بنایا۔
گھر کی آرائش سادہ مگر پُرذوق ہے۔
سرخ و سیاہ موزائیک فرش،
اونچی چھتیں،
ہوا دار برآمدے،
اور لکڑی کے مضبوط دروازے
اس دور کے فنِ تعمیر کی جھلک دکھاتے ہیں۔
ہر کمرہ
سوچے سمجھے انداز میں ترتیب دیا گیا ہے،
گویا ہر شے اپنی جگہ
خاموشی سے کوئی کہانی سنا رہی ہو۔
ہر کمرہ
کراچی کے اُس دور کی نمائندگی کرتا محسوس ہوتا ہے
جب یہ شہر
ثقافتوں، زبانوں،
اور خوابوں کا سنگم ہوا کرتا تھا۔
یہ زندہ عجائب گھر
کچھ یوں گویا ہوتا ہے
کہ تقسیم صرف سرحدوں کی نہیں تھی،
بلکہ یادوں،
رہن سہن،
ثقافت،
اور شناخت کی بھی تھی۔
اوپر چھت پر پہنچے تو
کچھ دیر ہم دونوں خاموش کھڑے رہے۔
سامنے مزارِ قائد
پورے وقار اور سکون کے ساتھ ایستادہ تھا۔
میں نے مزارِ قائد کا
ایسا پروقار منظر
پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
عجیب سنگم تھا یہ مقام۔
ایک جانب سفید سنگِ مرمر میں دمکتا
قائد کا مزار،
گویا ان کے خواب کی علامت،
اور دوسری جانب
ہمارے قدموں تلے
اس گھر کی مجسم صورت،
ان خوابوں کی تعبیر میں
اپنی زندگیاں صرف کرنے والے لوگوں کی
گزری زندگیاں،
رہن سہن،
بکھری آرزوئیں،
اور ادھورے خواب۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
خاصی مسافت طے ہو چکی تھی۔
بہت سے خواب
حقیقت کا روپ دھار چکے تھے،
اور کچھ اب تک ادھورے تھے،
خصوصاً محبت
اور سماجی انصاف کا خواب۔
داؤد فاؤنڈیشن کا یہ گھر
یہ احساس دلاتا ہے
کہ شہر صرف عمارتوں سے نہیں بنتے،
بلکہ انسانی آرزوؤں،
خوابوں،
اور اجتماعی یادداشت سے وجود پاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *