“I seem to have loved you in numberless forms, numberless times…”
Rabindranath Tagore 1861 – 1941
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
نا تمام محبت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل پندرہواں انشا ،شارق علی
رات کے کھانے کے بعد ایکس بوکس کھیلنے کی تجویز لیے میں یانی آپا کو ڈھونڈتا ہوا لان میں پہنچا تو وہ رات کی رانی کے پاس، پام کے پتوں سے چھن کر آنے والی چاندنی میں، بید کی آرام کرسی پر نیم دراز، ہاتھ میں کتاب لیے، جانے کس سوچ میں گم تھیں، اس سے پہلے کہ میں ان کا پسندیدہ شعر یاد کیے دور ہی سے لوٹ آتا۔ ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے۔ ۔وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو۔ وہ گویا خواب سے بیدار ہوتے اور کتاب بند کرتے ہوئے بولیں۔آئو ممدو. میں ٹیگور کی نظم نا تمام محبت کے سحر میں گرفتار تھی۔ مجھے بھی سنائیے یہ نظم- میں ساتھ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے بولا۔ بنگالی سے انگریزی اور پھر اردو۔چلو نظم کی ابتداتو سن ہی لو۔ سحرزدہ دل– تم سے ملا ہے–گیتوں کے لیے ہار–زندگی در زندگی– ہر پل، ہربار– نا تمام محبت– ان گنت بار. ٹیگور وہی نا جسے نوبل پرائز ملا تھا؟ میں نے پوچھا۔ کہنے لگیں، ہاں وہی۔ اٹھارہ سو اکسٹھ میں کلکتہ میں پیدا ہونے والے کی پہلی کتاب سترہ سال کی عمر میں چھپی تھی ۔پھر اس نے اٹھارہ سو اٹھتر سے اٹھارہ سو اسی تک انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سو نوے میں ہندوستان آیا تو باپ کی زمینوں پر غریب کسانوں کے دکھ دیکھے ۔پھر ساری عمر ان دکھوں کو کم کرنے، کسانوں کو اور عام لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے وقف کردی۔ انیس سو ایک میں اس نے شانتی نکیتن کی بنیاد رکھی جو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی درسگاہ کی صورت اختیار کر گئی۔ موسیقی، مصوری اور بہت سے عملی علوم بھی وہاں پڑھائے جانے لگے۔ انیس سو دس میں چھپنے والی گیتانجلی میں اس کی بیوی، بیٹے اور بیٹی کے بچھڑ جانے کا ذاتی دکھ بھی ہے اوروطن سے محبت اور مذہبی شدت پسندی سے بغاوت کے جذبات بھی۔ انیس سو پندرہ میں اسے نائٹ ہوڈ سے نوازا گیا جو اس نے چار سال بعد جلیان والا باغ کے سانحے پر لوٹا دیا۔ انیس سو سولہ سے انیس سو اکتالیس تک اس کی نظموں اور نغموں کے اکیس مجموعے شائع ہوئے اور اس دوران وہ یورپ، امریک، چائنا وغیرہ میں لکچر دینے میں مصروف رہا۔ اس نے انیس سو اکتالیس میں کلکتہ میں وفات پائی۔۔ٹیگورکی شاعری کلاسیکی موسیقی کی نغمگی اور روحانی پاکیزگی سیمٹے ایک ایسا بہتا ہوا دریا ہے۔جس میں انسانی محبت پر یقین اور خدا کی مدح سرائی موج در موج نظر آتی ہے۔ ٹیگور ایک ادبی جینیس تھا۔بیک وقت صوفی، مصور، شاعر اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی اور سماجی طور پر با شعور اور متحرک۔ تقریبا تین ہزار نظمیں، دو ہزار گانے، آٹھ ناول، مضامین اور کہانیوں کی چالیس جلدیں اور پچاس کے قریب ڈرامے لکھنے والا ادیب۔ خود اس کے الفاظ میں ‘دنیا مجھ سے رنگوں میں بات کرتی ہے اور میری روح اسے موسیقی میں جواب دیتی ہے۔۔۔۔جاری ہے۔