My conclusion must be true because there is no evidence to disprove it. When we say this, we shift the burden of proof away from us though we are the one who made this claim. This is a fallacy that hinders human wisdom
نادان مفروضہ ، فکر انگیز انشے ، دنیاگر
ہم پروف کے گھر کے لان میں بیٹھے شام کی چاہے پی رہے تھے . رمز اچانک بولا . اگر میرا کوئی معتبر دوست مجھ سے کہے کہ کل رات میری ملاقات مریخ سے آئی ہوئی مخلوق سے ہوئی تو کیا مجھے اس کی بات کا اعتبار کرناچاہیے؟ پروف بولے . بات دوستی کی نہیں سائینس کی ہے۔ اور سائنس میں انسانی گواہی یا انکڈوٹل ایویڈنس سب سے کمزور شہادت تصور ہوتی ہے. کسی عدالت کی طرح سائینس میں عینی شاہد کی گواہی کو مضبوط نہیں سمجھا جاتا . لیکن کیوں؟ کہنے لگے . دوسری جماعت میں کھیلا ہوا وہ کھیل یاد کرو جس میں ایک بچہ دوسرے کے کان میں کوئی مختصر سی کہانی کہتا ہے. پھر ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے یہ کہانی آخری بچے تک پہنچتی ہے تو پہلے اور آخری بچے کی کہانی میں زمین آسمان کا فرق نکلتا ہے. سوفی بولی . کوئی اور مثال؟ کہنے لگے . تم نے کتابوں میں یا سوشل میڈیا پر آپٹیکل الوژن کی بہت سی مثالیں دیکھی ہون گی. یہ سب اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ انسانی مشاہده قابل اعتبار نہیں . یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان ڈیٹا کلیکشن کے لحاظ سے ایک کم تر درجے کا آلہ ہیں ۔ انسانی مشاہدے کی گواہی کسی فوٹوشاپ تصویر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اسی لیے تمھارے دوست کی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. ہاں اگر وہ مریخی مخلوق کا دیا کوئی تحفہ یا ان کی خلائی گاڑی سے اٹھائی جانے والی کوئی چیز پیش کرے تو ساری دنیا کے سائنسدان اس قابل اعتبار گواہی کو مشاہداتی کسوٹی پر ضرور پرکھنا چاہیں گے . اور خلائی مخلوق؟ میں نے بات بڑھائی . بولے . سائنسدان وثوق سے خلائی مخلوق کے بارے میں انکار یا اقرار تو نہیں کرسکتے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس موجودہ لمحے تک ہمارے پاس کوئی ایسی گواہی موجود نہیں جو قابل اعتبار ہو اور ہمیں خلائی مخلوق کے وجود کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہو ۔ عقلمندی یہی ہے کہ نادان مفروضوں سے دور رہا جائے. سوفی بولی . نادان مفروضہ، مطلب ؟ پروف نے کہا. کسی وضاحت کو بغیر کسی ثبوت کے سچ قبول کر لینا یا کسی اصول کو بغیر مشاہدہ کیے سچ مان لینا سائنسدانوں کے نزدیک نادان مفروضہ ہے. اگر ہم کسی بات سے لا علم ہوں تو یہ کہنا بالکل ٹھیک ہو گا کہ ہم نہیں جانتے اور بس . بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے . خرابی کا آغاز تب ہوتا ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے مگر میرا اندازہ ہے یا میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے یا روایتی عقیدہ یہ ہے کہ اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے . ایسی بات کرنا نادان مفروضے جیسی سنگین غلطی کا آغاز ہوتا ہے . یہ بات دانشمندی کی جانب ہماری پیش رفت میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے . جیسا کہ جب انسان اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ زمین گول نہیں چپٹی ہے یا یہ کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یا ہماری زمین مرکز کائنات ہے تو زندگی جیسے تیسے جاری تو رہی لیکن یہ نادان مفروضے انسانی دانشمندی اور ترقی میں حائل ہوتے رہے . میں نے کہا . لیکن ہم اس جال میں پھنستے ہی کیوں ہیں ؟ کہنے لگے . انسانی نفسیات کچھ ایسی ہے کہ ہمیں ہر بات کا جواب درکار ہوتا ہے . کائناتی حقیقت کا سنگدل سچ یہ ہے کہ ہم انسانوں کو بہت سی باتوں سے لا علم ہوتے ہوے بھی زندگی گزارنی پڑتی ہے . جب ہم انسانی جبلت کے تحت نادان مفروضے کی غلطی کرتے ہیں تو کوئی غیر انسانی عمل نہیں کرتے . لیکن ایسا کرنا دانشمندی میں رکاوٹ ضرور ثابت ہوتا ہے . نہ جاننا تکلیف دہ ضرور ہے لیکن اس تکلیف کو صبرواستقامت سے برداشت کرنا چاہیے. سائنسدان نہ جاننے کی مشکل پر صبر کرنا جانتے ہیں. جبکہ عام لوگ اس تکلیف سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے کسی مذہبی عالم ، کسی سیاستدان ، کسی مطلب پرست تاریخ نویس یا منافع بخش اشتہار کے گھڑے ہوے نادان مفروضے کا سہارا لینے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اور سائنسدان ؟ رمز نے پوچھا . بولے . اُن کے ذہن میں جاننے اور نہ جاننے کے درمیان ایک واضح لکیر ہوتی ہے جب کہ ایک شاعر ، ناول نویس یا فلمی ہدایتکار اس لکیر کی بہت آسانی کے ساتھ خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ اس کے کام کی سجاوٹ اور کامیابی کے لئے بعض اوقات ایسا کرنا ضروری بھی ہوتا ہے اور اسے اس کی اجازت بھی ہوتی ہے . لیکن سائنسدان محض اپنے کام کی سجاوٹ کے لئے کبھی ایسی غلطی نہیں کرتے۔ وہ نہ جاننے کا بلاتکلف اعتراف کرتے ہیں اور جاننے کی سمت بلا خوف و خطر اپنے قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ مفروضات سے نہیں بلکہ مشاہدات اور منطق کا ہاتھ تھام کر سچائی کی سمت بڑھنا چاہتے ہیں. یاد رکھو کہ ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ ہم جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں مزید جاننے کے محترم کام میں مسلسل مصروف رہنا چاہیے ….جاری ہے