Late night in the cultural capital of Canada where John Lennon wrote his masterpiece “Give Peace a Chance” and Nadia Comaneci won the hearts of so many, here comes a vagrant. Enjoy the story!
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
مونٹریال کا بھک منگا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونتیسواں انشا، شارق علی
انکل پٹیل کینیڈا کے سفر کا احوال سنا رہے تھے. کہنے لگے. شہر کے مرکز میں واقع چائناٹاؤن کے بس اسٹاپ پر ائیرپورٹ کوچ رکی تو رات کا کوئی ایک بجا ہو گا. ڈرائیور نے سامنے نظر آتے ٹریولاج کے نیون سائن کی طرف اشارہ کیا اور دروازہ کھول دیا. شکریہ ادا کر کے اترا تو مونٹریال بچپن کی یادیں سمیٹے میرے قدموں تلے تھا. ١٩٧٦ کے اولمپکس میں نادیہ کومانیچی نے تین گولڈ مڈل اور کروڑوں دل جیتے تھے. جون لینن کا مشہور عالم نغمہ “امن کو ایک موقع دو” اسی شہر میں لکھا گیا تھا. فرانسیسی بولتا کینیڈا کا دوسرا بڑا شہر جہاں پچیس درجے منفی سردی اور دو مہینے برف معمول کی بات ہے. ہیروشیما کوبہن کہنے والا مونٹریال. بیگ تھامے میں ٹریویلوج میں داخل ہوا تو ریسپشن پر موجود سوٹ پہنے گورے سے نوجوان نے پہلے فرانسیسی آزمائی. گم سم دیکھا تو انگریزی میں خوش آمدید کہا. فارم بھرنے لگا تو نام دیکھ کر اپنے مینیجر اور مراکشی ہونے کا انکشاف کیا اور مسکراتے ہوئے کمرہ اسٹینڈرڈ سے کو ئینس سویٹ میں اپ گریڈ کر دیا. نقشہ نکل کر بینک، پوسٹ آفس، شاپنگ سینٹر کے علاوہ قریبی مسجد کی نشاندہی بھی کی. سامان کمرے میں رکھ کر ڈائننگ ہال پہنچا تو دروازہ بند. ریسپشن بھی خالی. بھوک سے برا حال تھا. بہار آ کر سڑک عبور کی اور ایک گلی کے آخر میں کچھ روشنیوں کے تعاقب میں چلنے لگا. مونٹریال نہ صرف زمین کے اوپر آباد ہے بلکہ دنیا کا سب سے بڑا زمین دوز نظام اس کی وجہ شہرت ہے. بیس میل لمبے بجلی اور ایئر کنڈیشننگ سے آراستہ زمین دوز راستے مختلف شاپنگ سینٹر ، بینک ، سرکاری دفاتر، پوسٹ آفس، یونیورسٹی، اپارٹمنٹس اور میٹرو اسٹیشن کو آپس میں ملا ے رکھتے ہیں. سردیوں میں پانچ لاکھ افراد یہ نظام استعمال کرتے ہیں. چلتے چلتے ایک معمولی سا ریستوران کھلا ہوا دکھائی دیا. پیزا کا آرڈر دے کر میں قریبی میز پر بیٹھا ہی تھا ایک ساڑھے چھ فٹ لمبے، گنجے سر سرخ آنکھوں والے سفید فام نے کان کے نزدیک آ کر سرگوشی کی. کیا ایک پیزا کی مہربانی ہو سکتی ہے، پلیز. میں اس کے کپڑوں کی بو اور منہ سے نکلتے بھبھکوں سے ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ دبلی پتلی چار فٹ دس انچ کی چائنیز ویٹریس میز کے قریب آئی اور ڈپٹ کر بولی. کتنی بار کہا ہے پیٹر. گاہکوں کو پریشان مت کیا کرو. پھر انگلی دروازے کی طرف اٹھا کے چیخی. نکلو، میں کہتی ہوں دفع ہو جاو فورا. میں سہم گیا. بھک منگے کا ایک چھانپڑ چائنیز غصّے کوعالم بالا میں پہنچا سکتا تھا. پیٹر سر جھکائے شرارت کے دوران پکڑے گئے بچے کی طرح ریستوران سے باہر نکل گیا. پیٹ کی آگ بجھا کر باہر آیا تو پیٹر دروازے سے کچھ دور سرد رات میں ایک کونے میں بیٹھا اونگھ رہا تھا. رحم دلی کی تیزہوائیں چلنے لگیں. پھر خیال آیا کہ میں نے مدد کو پرس نکالا تو یہ کہیں چاقونکال کر پرس سمیت زمین دوز نہ ہو جاتے. خدشات اور میں تیز قدموں سے ٹریویلوج کی جانب چل دیے ……….جاری ہے