” موت سے نہیں بے مقصد اور بیکار زندگی سے خوف کھاو”
وہ ایک ممتاز رومی شہنشاہ تھا. جو اپنے فلسفیانہ نظریات اور تحریروں کے سبب سے جانا جاتا ہے. خاص طور پر اس کی مشہور کتاب “میڈیٹیشن” کی وجہ سے۔ مارکس اوریلیس محض ایک شہنشاہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک سٹویک فلسفی بھی تھا۔ اس نے زندگی کی فطرت، خوبی اور انسانی وجود پر گہرا غوروفکر کیا۔
اس کا مشہور قول “موت سے نہیں بے مقصد اور بیکار زندگی سے خوف کھاو”
اس کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، وہ تجویز کرتا ہے کہ موت سے خوفزدہ ہونے کے بجائے، ہمیں زندگی کو مکمل طور پر تجربہ نہ کرسکنے اور اسے گلے نہ لگا سکنے کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
مارکس اوریلیس کا خیال تھا کہ یہ بہت بڑا المیہ ہو گا اگر ہم محض اپنی زندگی کے دن جیسے تیسے پورے کریں ویسا ہی عمل کر کے، ان ہی رویوں اور اقدار کو درست مان کر جو ہمارے ارد گرد جاری و ساری ہوں۔ اور پھر موت کے خوف میں مبتلا ایک سہمی ہوی زندگی گزار کر اپنے اختتام تک آ پہونچیں۔ گویا زندگی محض ایک بے مقصد جیسے تیسے دن پورے کر لینے کا عمل ہو۔
ایسی بیکار زندگی کے بجاے وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. کہ وہ ایکبار ملنے والی زندگی کی نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اس دنیا میں اپنے وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کریں۔ اسے اپنے اور دوسروں کے لیے کارآمد اور مفید بنایں۔ اس کے مطابق، اصل خوف موت کا نہیں بلکہ اپنے خوابوں، جذبوں اور خواہشات کو نہ سمجھ سکنے اور ان کی تکمیل کی جدوجہد میں شامل نہ ہو کر اپنی زندگی برباد کرلینے کا ہونا چاہیے۔
گویا مارکس اوریلیس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی ایک قیمتی تحفہ ہے، یہ ہر فرد پر لازم ہے اور اسی پر منحصر ہے کہ وہ اسے بامقصد، انسانیت کی خدمت سے بھرپور اور مکمل بناے۔ ہر دم موت کے خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے صحیح معنوں میں اپنی زندگی جینے کے قابل بنے۔ اپنی صلاحیتوں کو تلاش اور استعمال کرنے، اور راستے میں آنے والی خوشیوں اور چیلنجوں کو قبول کرنے پر مکمل توجہ دے۔
شارق علی