صلاح الدین ایوبی: دلوں اور یروشلم کا فاتح
تحقیق و تحریر: شارق علی
ویلیو ورسٹی
بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطیٰ میں، صلیبی جنگوں کی ہنگامہ خیزیوں کے درمیان، ایک شخص ابھرا جو صدیوں تک دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا رہا۔ یہ شخص تھا صلاح الدین ایوبی، جسے مغرب میں سلاڈن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے عسکری کارناموں کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے بلکہ اپنے عدل و انصاف، فیاضی اور مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری کے برتاؤ کی وجہ سے بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے۔
ابتدائی زندگی
صلاح الدین ایوبی 1137 یا 1138 میں دریائے دجلہ کے کنارے واقع قصبہ تکریت (موجودہ عراق) میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان نسلی طور پر کرد تھا، جو بعد ازاں موصل اور پھر دمشق منتقل ہوا۔ دمشق میں صلاح الدین نے اپنی نوجوانی گزاری اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی حاصل کی۔ ان کے چچا، اسد الدین شیرکوہ، ایک قابلِ ذکر فوجی قائد تھے، جنہوں نے زنگی سلطنت کی خدمت کی۔
صلاح الدین نے اپنے چچا کی قیادت میں جنگی حکمتِ عملی اور انتظامِ سلطنت کے اسرار و رموز سیکھے۔ ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جو تعلیم، انصاف اور ایمان کو بنیادی اہمیت دیتا تھا۔ یہی وہ اقدار تھیں جنہوں نے بعد میں ان کی حکمرانی کے اصول وضع کیے۔
اقتدار کا عروج اور فتحِ یروشلم
صلاح الدین ایوبی کی عسکری قابلیت اس وقت نمایاں ہوئی جب انہوں نے اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ فاطمی خلافت کے دفاع میں مصر میں حصہ لیا۔ شیرکوہ کی وفات کے بعد، صلاح الدین نے جلد ہی اقتدار سنبھال لیا اور مصر کے وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے اقتدار کو مضبوط کیا بلکہ شیعی فاطمی خلافت کا خاتمہ کر کے سنی اسلام کو دوبارہ غالب کیا۔
صلاح الدین نے صرف مصر ہی میں نہیں بلکہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں بھی اپنی حکمرانی قائم کی۔ ان کی قیادت نے مسلم دنیا کو ایک مضبوط اتحاد فراہم کیا، جو صلیبیوں کے خلاف کامیاب جنگوں کی بنیاد بنا۔
1187 میں، صلاح الدین کی افواج نے جنگِ حطین میں صلیبیوں کو فیصلہ کن شکست دی، جو یروشلم کی فتح کا پیش خیمہ بنی۔ لیکن صلاح الدین کی عظمت صرف جنگی فتوحات تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کے اصولوں، حسن اخلاق اور احترامِ انسانیت کے مظاہرے کے باعث بھی تھی۔ انہوں نے فتح کے بعد نہ صرف یروشلم کے شہریوں کو معاف کیا بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا، ان کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی اور انہیں عزت و وقار کے ساتھ رخصت ہونے کی اجازت دی۔ بہت سے عیسائی قیدیوں کا فدیہ اپنی جیب سے ادا کیا اور انہیں آزادی دی۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں مسلمانوں کو “دشمن” سمجھا جاتا تھا، لیکن صلاح الدین کی شرافت اور انصاف نے یورپ میں بسنے والوں کے دل و ذہن کو بدل دیا۔ یہاں تک کہ صلیبی جنگجو بادشاہ رچرڈ دی لائن ہارٹ نے بھی صلاح الدین کے عدل و انصاف کی تعریف کی۔
یورپ کا خراج تحسین
صلاح الدین ایوبی کی یاد نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغرب میں آج بھی زندہ ہے۔ ناروے میں ہر سال ان کی یاد میں سالانہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جہاں انہیں بین المذاہب رواداری اور انصاف کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اسی طرح، برطانیہ میں برطانوی بحریہ نے بیسویں صدی میں ایک جنگی جہاز کا نام “Saladin” رکھا تھا۔ مزید یہ کہ برطانوی فوج نے ایک بکتر بند گاڑی کا نام بھی ان کے نام پر رکھا تھا۔ یہ یورپ کی تاریخ پر ان کے مثبت اثر و رسوخ اور عزت کی زندہ مثال ہے۔
بعد کی زندگی اور وصال
یروشلم کی فتح کے بعد، صلاح الدین ایوبی کی شخصیت دنیا بھر میں ایک افسانوی مقام حاصل کر گئی۔ ایسا ہونا بالکل بجا تھا کیونکہ وہ نہ صرف ایک کامیاب حکمران تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ کئی موقعوں پر یورپ کے بادشاہ اور دانشور ان کے عدل و انصاف کی مثال دیا کرتے تھے۔
صلیبی جنگوں کے بعد انہوں نے اپنی توجہ حکمرانی کے امور پر مرکوز کی، شہروں کی بحالی کی، تعلیمی ادارے قائم کیے اور اپنی سلطنت میں استحکام پیدا کیا۔
صلاح الدین ایوبی نے 1193 میں دمشق میں وفات پائی۔ ان کی عمر 56 برس تھی۔ اپنی وفات کے وقت ان کے پاس ذاتی دولت موجود نہ تھی، لیکن ان کا ورثہ عدل و انصاف اور انسانی رواداری کی مثال بن کر آج بھی زندہ و جاوید ہے۔
دمشق میں ان کا مقبرہ آج بھی عقیدت مندوں کی زیارت گاہ ہے، جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔