Skip to content
Home » Blog » سفر کی تنہائی اور کائنات کا راز

سفر کی تنہائی اور کائنات کا راز

  • by

سفر کی تنہائی اور کائنات کا راز 🌌✨

شارق علی
ویلیوورسٹی

یہ سن 1930ء کی بات ہے۔ مدراس کا ایک انیس سالہ غریب طالب علم سبراہمنین چندر شیکھر لندن جا رہا تھا۔ اس کے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور گھر میں اتنی استطاعت نہیں تھی کہ بیٹے کو باہر بھیج سکیں۔ مگر چندر شیکھر نے اپنی ذہانت اور محنت سے کیمبرج میں اعلی تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرلیاتھا۔ اسی وظیفے کی بدولت وہ انگلستان جانے والے بحری جہاز پر سوار ہوا۔ اس کے پاس سامان نہ ہونے کے برابر تھا، بس چند کتابیں، کچھ کاغذات اور تجسس اور خوابوں سے بھرا ذہن۔

جہاز کا سفر اس کے لیےدشوار تھا۔ دیگر سفید چمڑی والے مسافر ثقافتی فرق اور تعصب کے باعث اس سے دور ہی رہتے۔ لیکن اس نے اپنی تنہائی کو کمزوری نہیں بننے دیا۔ عرشے پر بیٹھ کر وہ بوہر، ہائزنبرگ اور شروڈنگر کی تحریروں اور ان سے متعلق سوچ بچار میں ڈوبا رہتا۔ یہیں اس نے وہ حسابی فارمولے دریافت کر لیے جو آگے چل کر فلکیات کی بنیادیں ہلا دینے والے تھے۔

اس نے ثابت کیا کہ ستارے ہمیشہ زندہ نہیں رہتے۔ بلکہ اگر ان کا وزن سورج کے وزن کے 1.44 گنا سے بڑھ جائے تو وہ اپنی روشنی کھو کر اندھیروں میں ڈھنس جاتے ہیں۔ وہی اندھیرے جنہیں آج ہم بلیک ہول کہتے ہیں۔

یہ حد ہمیشہ کے لیے اس کے نام سے جانی گئی: چندر شیکھر لمٹ۔

کیمبرج پہنچنے پر اس کی تحقیق کا مذاق اڑایا گیا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ پچاس برس بعد، 1983ء میں، وہی نوجوان بالاخر نوبل انعام یافتہ سائنس دان بنا۔

یہ کہانی نوجوانوں کو سکھاتی ہے کہ غربت، تنہائی یا مخالفت، منزل کے راستے نہیں روک سکتیں۔ خواب اور محنت آخرکار حقیقت بن ہی جاتے ہیں۔ 🌟💪

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *