:زاہدہ خاتون شیروانی
اردو میں نسائی مزاحمت کی (پہلی) آواز
شارق علی
ویلیوورسٹی
زاہدہ خاتون شیروانی، جو
ز۔خ۔ش کے قلمی نام سے مشہور ہیں، اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ پہلی خاتون شاعرہ ہیں جنہیں ان کی فکر کی گہرائی اور تخلیقی اظہار کی بدولت نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ وہ غالبا اردو ادب کی پہلی نسائی مزاحمتی اواز ہیں۔ اس دور کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اگرچہ انہوں نے اپنی شناخت کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی، مختلف نام اپنائے اور کچھ عرصہ لکھنے سے گریز بھی کیا، لیکن ان کی شاعری نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
زاہدہ 1894 میں علی گڑھ کے نواب سر مزمل خان کے گھر پیدا ہوئیں۔ متمول اور روایتی خاندان تھا۔ پردے کی سخت پابندیوں کے باوجود، انہوں نے گھر پر اردو، عربی، اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنی شاعری میں انہوں نے نہ صرف ملی مسائل اور وطن پرستی کو موضوع بنایا بلکہ عورتوں کے حقوق اور سماجی نابرابری کے خلاف بھی بھرپور اور واضح آواز اٹھائی۔
شاعری اور ادبی خدمات
ان کی ایک مشہور نظم اکتوبر 1912ء میں رسالہ عصمت میں شائع ہوئی، جو محمڈن یونیورسٹی کے لیے چندے کی اپیل پر مبنی تھی۔ اس نظم کے ایک شعر نے قارئین کے دلوں کو چھو لیا:
اے فخرِ قوم بہنو، عصمت شعار بہنو
مردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو
زاہدہ خاتون کو ان کی شاعری کی بدولت عورتوں کا اقبال بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے دو مجموعہ کلام، آئینۂ حرم اور فردوسِ تخیل منظرِ عام پر آئے۔ ان میں سے فردوسِ تخیل ان کی وفات کے بعد شائع ہوا، جس میں 121 نظمیں شامل ہیں۔ یہ نظمیں موضوعات کی گوناگونی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے، ان کی غزلوں کو ان کے والد کے ایماء پر تلف کر دیا گیا تھا۔ یہ دردناک بات اس دور میں خواتین کے حقوق کے فقدان اور روایتی تنگ نظری کی مظہر ہے
عورتوں کے حقوق کی آواز
زاہدہ خاتون نے اپنی شاعری کے ذریعے عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کی نظموں میں خواتین کے لیے ایک حساس اور بیدار دل کی جھلک ملتی ہے
نمونہ کلام
میری صورت ہے تماشا گہ یاس و امید
گر تجھے شوق تماشا ہے تو آ دیکھ مجھے
سب مری بات پہ کہتے ہیں کہ مختل ہے دماغ
تجھ کو دیوانوں کا سودا ہے تو آ دیکھ مجھے
مجھ سے بھی برسر پیکار ہے قسمت میری
دیکھنا جنگ کا نقشہ ہے تو آ دیکھ مجھے
ایک اور مثال ملاحظہ ہو
عورتوں کے حق میں ہر مذہب کا ہر ملّت کا مرد
جانور تھا، دیوتا تھا، عفریت، شیطان تھا
باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو کہ ہو فرزند وہ
مرد کُل اشکال میں فرعونِ بے سامان تھا
مرد کی نا آشنا نظروں میں عورت کا وجود
ایک مورت، اک کھلونا، اک تنِ بے جان تھا۔
وفات اور وراثت
زاہدہ خاتون صرف 27 سال کی عمر میں 1922ء میں وفات پا گئیں۔ علامہ راشد الخیری نے ان کے انتقال پر لکھا:
“وہ اس پائے کی عورت تھیں کہ آج مسلمانوں میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔”
ان کی خالہ زاد بہن انیسہ خاتون شیروانی نے ان کے انتقال کے 18 سال بعد ان کی شاعری کو مرتب کر کے شائع کیا۔ زاہدہ خاتون شیروانی کی شاعری آج بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔